۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا سید ذاکر حسین جعفری

حوزہ/ حضرت زینب (س) نے واقعہ کربلا کو اجاگر کرنے اور زندہ رکھنے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔کوفہ اور شام کے درباروں میں آیات قرآنی پر مبنی عالمانہ خطبات آپ کی علمی قوت اور قدرت کا مظہر اور آپ کی فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مذہبی اور بین الاقوامی امور کے ماہر و کارشناس،ایڈیٹر مہر نیوز ایجنسی اردو، حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید ذاکر حسین جعفری نے حضرت زینب(س) کی وفات کی مناسبت سے کہا کہ شہزادی زینب (س) 5 جمادی الاول سن 5 یا 6 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں خاندان نبوت، ولایت اور عصمت کے گھر پیدا ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ حضرت زینب (س) پیغمبر اسلام (ص) اور ام المومنین حضرت خدیجہ (س)کی نواسی، حضرت علی (ع) ، حضرت زہرا (س) کی بیٹی اور لخت جگر تھیں۔ نبی کریم (ص)نے ولادت کے بعد اپنی پیاری نواسی کو آغوش میں لیا، بوسہ دیا ، سینے سے لگایا ، پیار کیا اور پھر گریہ کرنا شروع کردیا، گریہ کا سبب پوچھنے پر آنحضور (ص) نے فرمایا: جبرائیل امین نے مجھے خبر دی ہےکہ میری یہ بیٹی کربلا کے روح فرسا مصائب میں میرے حسین(ع) کے ساتھ برابر کی شریک ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کا ایک لقب شریکه الحسین بھی ہے۔

نبی کریم(ص) نے آپ کا نام زینب رکھا اور پھر فرمایا: میری زینب (س) اپنی نانی خدیجہ کبری کی شبیہ اور ہو بہو تصویر ہیں۔

مولانا ذاکر حسین جعفری نے کہا کہ حضرت زینب کا بچپن فضیلتوں کے ایسے پاک و پاکیزہ ماحول میں گزرا، جو تمام جہات سے کمالات میں گھرا ہوا تھا۔ جس پر نبوت، امامت اور عصمت کا سایہ ہر وقت موجود رہتا تھا اور ان پر ہر سمت سے نورانی اور معنوی کرنیں سایہ فگن تھیں۔ پیغمبر اسلام نے انہیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے حضرت زینب کی تربیت کی فکری بنیادیں مضبوط اور مستحکم کیں۔عالمہ غیر معلمہ، ثانی زہرا، عقیلہ بنی ہاشم، فاضلہ اور شریکه الحسین آپ کے مشہور القاب ہیں۔

انہوں نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام سجاد (س) نے آپ کا علمی مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا: انت بحمداللہ عالمه غیر معلمه و فهمه غیر مفهمه اے پھوپھی آپ کو کسی نے پڑھایا نہیں اور آپ غیر معمولی فہم و فراست کی حامل ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ حضرت زینب (س) نے واقعہ کربلا کو اجاگر کرنے اور زندہ رکھنے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔کوفہ اور شام کے درباروں میں آیات قرآنی پر مبنی عالمانہ خطبات آپ کی علمی قوت اور قدرت کا مظہر اور آپ کی فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حضرت زینب (س) اللہ تعالی کی عبادت و بندگی کا خاص اہتمام کرتی تھیں، آپ نے کبھی نماز تہجد کو ترک نہیں کیا۔ اللہ تعالی کے ساتھ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا ارتباط اور اتصال کچھ ایسا تھا کہ حضرت امام حسین (ع) نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا: " یا اختی لا تنسینی فی نافلہ اللیل " ۔ میری بہن! نماز شب میں مجھے فراموش نہ کرنا۔

آخر میں کہا کہ حضرت زینب (س) نے حضرت امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد ایک طرف حسینی پیغام کو دنیا تک پہنچایا اور دوسری طرف بنی امیہ کے ظلم و استبداد کو بے نقاب کیا۔ حضرت زینب (س) شام کے زندان سے رہا ہو کر مدینہ آگئیں ، روایت کے مطابق حضرت زینب (ع) کو اپنی بھتیجی حضرت سکینہ کی یاد آئی اور پھر مدینہ سے شام روانہ ہوئیں۔راستے میں اس درخت پر نظر پڑی جس پر سر امام حسین (ع) لٹکایا گیا تھا، اس درخت کو دیکھنے کے بعد تمام مصائب آپ کی آنکھوں کے سامنے آگئے، کربلا کے زخم دوبارہ ہرے ہوگئے اور واقعہ کربلا کے ڈیڑھ سال بعد 15 رجب سن 62 ہجری میں 56 سال کی عمر میں آپ نے اپنی جان جان آفرین کے حوالے کردی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .